Saturday, June 27, 2015





چار قسم کے آدمیوں کا امتحان
عن الاسود بن سریع ان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال اربعۃٌ یوم القیٰمۃ رجل اَصمُّ لا یسمع شیئا …… الخ۔ (مسند احمد طبع بیروت ج۴ص۲۴)
حضرت اسود بن سریعؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ قیامت والے دن چار قسم کے آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے اور ان کا امتحان ہوگا، فرمایا ان میں سے ایک آدمی بہرہ ہو گا جو کچھ نہیں سن سکتا تھا،اور دوسرا آدمی احمق ہو گا جس کو کسی قسم کی سمجھ نہیں تھی،اور تیسرا انتہائی بوڑھا آدمی ہو گا،اور چوتھا آدمی وہ ہو گا جو فترت کے زمانے میں مر گیا یعنی ایسے دور میں زندگی گزاری جس دوران اللہ کا کوئی نبی نہیں آیا۔
سب سے پہلے بہرہ آدمی بارگاہِ رب العزت میں پیش ہو گا،تو پروردگار فرمائے گا کہ دنیا میں اسلام آیا مگر تو نے اسے قبول نہ کیا؟ تو وہ عرض کرے گا،مجھے تو کچھ سنائی ہی نہیں دیتا تھا لہٰذا نہ میں نے تیرا حکم کسی سے سنا اور نہ میں اس پر ایمان لایا،پھر احمق آدمی پیش ہو گا تو پروردگار فرمائے گا کہ اسلام آیا تھا مگر تو ایمان کیوں نہیں لایا؟ وہ عرض کریگا پروردگار! میری حالت تو یہ تھی کہ بچے مجھے پتھر مارتے تھے،مینگنیاں پھینکتے تھے،میں تو معذور تھا، بھلا اسلام کو کیسے قبول کرتا، پھر بوڑھے آدمی کی باری آئے گی تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی یہی سوال کریگا کہ دنیا میں اسلام آیا تھا مگر تو نے قبول نہ کیا؟ تو وہ عرض کرے گا کہ میں تو اس قدر بوڑھا ہو چکا تھا کہ کوئی چیز سمجھ میں ہی نہیں آتی تھی،بھلا میں کیسے اسلام قبول کرتا، انتہائی بڑھاپے کی حالت میں واقعی انسان کی عقل ماری جاتی ہے اسی لئے تو اس سے پناہ مانگی گئی ہے۔
آخر میں چوتھے شخص کی باری آئے گی جو فترت کے زمانہ میں مر گیا جب اس سے بھی اللہ تعالیٰ یہی سوال کریگا کہ تونے اسلام قبول کیوں نہ کیا تو وہ عرض کریگا پروردگار! میرے پاس تو تیرا کوئی رسول آیا ہی نہیں جو مجھے حق کا راستہ بتاتا اور میں اس کی اطاعت کرتا، فترت سے مراد وہ زمانہ ہو تا ہے جس میں کوئی نبی نہ آیا ہو، غرضیکہ یہ چار قسم کے آدمی اسلام کی عدم قبولیت کے متعلق اپنے اپنے عذر پیش کریں گے۔
اب اللہ تعالیٰ ان کی دوسرے طریقے سے آزمائش کریگا وہ ان سے کہے گا کہ اچھا دنیا میں تو تمہارے یہ عذر موجود تھے کہ تمہیں میرا پیغام نہ پہنچ سکا یا اگر پہنچا تو تم اس قابل نہیں تھے کہ اس کو سمجھ کر اس پر عمل کر سکتے، اب بتاؤ کہ اس وقت میں تمہیں جو حکم دوں گا اس پر عمل کرو گے؟ وہ عرض کریں گے،پروردگار! ہم بسر وچشم تیرے حکم کی تعمیل کریں گے، اللہ تعالیٰ حکم دیگا کہ چلو دوزخ میں داخل ہو جاؤ،پھر حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا فوالّذی نفس محمّد بیدہٖ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے لَو دخلوہا لکانت علیہم برداً وّسلاماً اگر وہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں دوزخ میں داخل ہو جائیں گے تو وہ دوزخ ان کیلئے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جائے گی اور وہ اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں گے، اور جو شخص دوزخ میں داخل ہونے سے انکار کریگا اس کو گھسیٹ کر اس میں پھینک دیا جائیگا، اور ایسا شخص اس امتحان میں ناکام ہوجائے گا۔
یہ تو ان لوگوں کے متعلق ہے جن کیلئے دنیا میں اسلام کی حقیقت کو سمجھنا ممکن نہ تھا، البتہ مشرک کو اللہ تعالیٰ کسی صورت میں بھی معاف نہیں کریگا اور اگر کفر کا ارتکاب کیا ہے تو وہ بھی معاف نہیں ہو گا اگرچہ اس تک دنیا میں رسول نہ پہنچا ہو،ایسی صورت میں احکام کے بارے میں تو بازپرس نہیں ہو گی مگر کفر کا مواخذہ ضرور ہو گا، امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص پیدا ہوتے ہی کسی صحرا میں پہنچ جائے یا کسی بلند پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جائے جہاں کسی انسان کا گزر نہ ہو تو ایسا شخص بھی کفر کے مواخذہ سے نہیں بچ سکے گا کیونکہ اللہ کی وحدانیت کی پہچان کیلئے کسی ہادی کا ہونا ضروری نہیں بلکہ ہر انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس کو اپنی عقل کے ساتھ پہچانے، اللہ نے کائنات میں اپنی قدرت کی لا تعداد نشانیاں پھیلا رکھی ہیں اگر کوئی شخص ان میں غور و فکر کر کے اللہ کی وحدانیت کو نہیں پہچانتا تو اس کیلئے کوئی معافی نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کیلئے توحید کو عقلی طور پر بھی سمجھنا ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment